Azeem Mualam

عظیم معلّم


نوید صاحب ہمارے اسکول کے ہر دل عزیز استاد ہیں۔ایک دن وہ بتا رہے تھے کہ اساتذہ اپنے شاگردوں کے لیے والدین کے برابر ہوتے ہیں۔شاگردوں کا مستقبل سنوارتے ہیں۔پھر انھوں نے کہا کہ آج میں آپ کو دو عظیم اساتذہ کے واقعات سناؤں گا ،توجہ سے سنیے۔ جب کمرے میں خاموشی چھا گئی تو نوید صاحب نے کہنا شروع کیا۔

جن لوگوں نے دریائے کنہار دیکھا ہے ،وہ جانتے ہیں کہ یہ نہایت تیز رفتار ،طوفانی لہروں اور بپھرتی ہوئی موجوں والا در یا ہے،جسے دیکھنے سے خوف آتاہے۔
2جون2014ء کی چمکتی دوپہر کو اس دریا کے کنارے ایثار وقربانی، فرض سے محبت اور انسان دوستی کی مثال قائم کی گئی۔
”نصر اللہ شجیع ایک فرض شناس معلم تھے۔ان کے والد بھی شعبہ تدریس سے منسلک تھے۔

نصر اللہ ابھی میٹرک میں تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔نصر اللہ شجیع بھی شعبہ تدریس سے منسلک ہو گئے۔شاگردوں سے محبت انھیں ورثے میں ملی۔وہ کراچی کی ایک مشہور درس گاہ کے پرنسل تھے۔کراچی کے طالب علموں کے لیے پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی سیر کشش رکھتی ہے۔نصر اللہ شجیع بھی اپنے اسکول کے ایک گروپ کو لے کر روانہ ہوئے۔کچھ دیر لاہور میں ٹھہرے۔

کاغان سے پہلیز بالاکوٹ ایک اہم مقام ہے گویا یہ وادی کا غان کا دروازہ ہے۔سو انھوں نے وہاں قیام کیا۔دریائے کنہار،بالاکوٹ میں پہنچ کرطوفان بن جاتاہے،لیکن پھر بھی بچوں کے لیے دریا کے کنارے تصویریں بنانا ایک دلچسپ تجربہ ہوتاہے۔اکثر بچے کو شش کرتے ہیں کہ دریا کے کنارے کسی بڑے پتھر پر بیٹھ کر تصویر بنوائیں۔
منتظمین اور اساتذہ کے لیے یہ مرحلہ بڑا دشوار ہوتاہے۔

ماں باپ تو بچوں کو اساتذہ کے بھروسے پر بھیجتے ہیں۔نصر اللہ شجیع بچوں کے قریب ہی موجود تھے کہ اچانک ایک قیامت خیر لمحہ آپہنچا ۔ایک طالب علم سفیان عاصم کا پاؤں پھسلا اور وہ دریا میں گر گیا۔بچوں کے نگران پرنسپل نصر اللہ شجیع نے ایک لمحے کی تاخیر بھی نہ کی اور بے خطر دریا میں کود گئے۔یہ بھی نہیں سوچا کہ وہ تیرنا نہیں جانتے ۔یہ بھی نہ پوچھا کہ کیا کسی کو تیرنا آتاہے؟انھیں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کا خیال بھی نہ آیا،بس چھلانگ لگا دی۔

ہوائیں تھم
گئیں، سانسیں رک گئیں،لیکن دریا کی طوفانی لہریں ایک استاد اور شاگرد کو اپنے ساتھ بہا کر لے گئیں۔نہ جانے وہ کہاں گئے؟شاید فرشتوں نے انھیں اپنے پروں میں چھپا لیا ،لیکن یہ داستان تاریخ کے اوراق پر زندہ رہے گی۔“
نوید صاحب نے کہانی ختم کی تو کلاس میں ہر ایک کے چہرے پر اُداسی چھائی ہوئی تھی۔
کچھ دیر رک کر نوید صاحب نے دوسرا واقعہ سنانا شروع کیا:”اس واقعے سے پہلے گجرات کی ایک معلمہ جلتی وین میں پھنسے اپنے شاگردوں کو باہر نکالنے کے لیے ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر آگ میں بے خطرکود پڑیں۔

حالانکہ وہ اپنی جان بچا چکی تھی اور اپنے بھتیجوں کو بھی نکال چکی تھیں۔شاگردوں سے بے لوث محبت کا جزبہ دل میں بیدار تھا۔انھوں نے چند اور بچوں کی بھی جان بچالی،لیکن خود کو شعلوں سے نہ بچا سکیں اور اپنی جان دے کر کئی شاگردوں کو بچا لیا۔“

Leave a Comment