Allama Iqbal Islamic Poetry

“برطانوی ہندوستان میں ایک فلسفی، شاعر، اور سیاست دان علامہ اقبال کو ان کی متاثر کن اسلامی شاعری کے لیے بڑے پیمانے پر احترام کیا جاتا ہے۔ اس کے کام گہرے اور کثیر جہتی ہیں، جو اکثر خودی، روحانیت، اور زندگی کے مقصد کے موضوعات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اقبال کی سب سے مشہور نظموں میں سے ایک، ‘لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری،’ دعا کے جوہر کو ظاہر کرتی ہے، الہی رہنمائی اور ہمت کی درخواست کرتی ہے۔ ان کی شاعرانہ تخلیقات مسلسل متاثر کرتی ہیں، جو قارئین کو خود شناسی کے گہرے احساس اور ان کی روحانی شناخت کے بارے میں وسیع تر تفہیم سے آمادہ کرتی ہیں۔

ان کے مزید اشعار یہ ہیں۔

قوتِ وشق سے ہر پست کو با لا کردے
دہر میں اسمِ محمدﷺ اجالا کردے۔

میرے بچپن کے دن بھی کیا خو ب تھے اقبالؔ
بے نما زی بھی تھا اور بے گناہ بھی

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نو ری پے روتی ہے
بڑی مشکل سے ہو تا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔

حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی۔

صبح کو باغ میں شبنم پڑتی ہے فقط اس لیے
کہ پتّا پتّا کرے تیرا ذکر با وضوہو کر۔

دلوں کی عمارتوں میں کہیں بندگی نہیں
پتھروں کی مسجدوں میں خدا دھونڈتے ہیں لوگ۔

یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو تم
یوں تو سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو تم

بات سجدوں کی نہیں خلوصِ دل کی ہو تی ہے اقبالؔ
ہر میخا نے میں شرابی اور ہر مسجد میں نمازی نہیں ہو تا۔

اذان تو ہو تی ہے اب مگر نہیں کو ئی موذن بلال سا
سر بسجدہ تو ہیں مومن مگر نہیں کو ئی زہراؓ کے لال سا۔

کیوں منتیں مانگتا ہے اوروں کے دربار سے اقبالؔ
وہ کون سا کام ہے جو ہو تا نہیں تیرے خدا سے۔

دُعا تو دل سے مانگی جاتی ہے،زبان سے نہیں
اے اقبال
قبول تو اس کی بھی ہوتی ہے جس کی زبان نہیں ہوتی۔

حُسن کردار سے نورِ مجسم ہو جا
کہ اِبلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلمان ہو جائے۔

خو دی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضاکیا ہے۔

یوں تو خدا سے مانگنے جنت گیا تھا میں
کرب و بلا کو دیکھ کر نیت بدل گئی۔

صدقِ خلیل بھی ہے عشق ،صبرِ حسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق۔

داغِ سجود اگر تیری پیشانی پر ہوا تو کیا
کو ئی ایسا سجدہ بھی کر کہ زمین پر نشاں ر ہیں۔

سجدہ خالق کو بھی،ابلیس سے یا رانہ بھی
حشر میں کس سے محبت کا صلہ مانگے گا؟

ہنسی آ تی ہے مجھے حسرتِ انسان پر
گناہ کرتا ہے خود،لعنت بھیجتا ہے شیطان پر

کا فر ہے تو شمشیر پے کرتا بھروسہ
مو من ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔

علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن
عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمینِ وظن۔

کافر کی یہ پہچان ہے کہ آفاق میں گُم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گُم اُس میں ہے آفاق

سجدوں کی عوض فردوس ملے یہ بات مجھے منظور نہیں
بے لوث عبادت کرتا ہوں بندہ ہوں تیرا مزدور نہیں

 

 

Leave a Comment